سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف
مری ایک ذاتِ دگر کی طرف
بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا
اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف
مرے واسطے جانے کیا لائے گی
گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف
کنارہ ہی کٹنے کی سب دیر تھی
پھسلتے گئے ہم بھنور کی طرح
کوئی درمیاں سے نکلتا گیا
نہ دیکھا کسی ہم سفر کی طرف
تری دشمنی خود ہی مائل رہی
کسی رشتۂ بے ضرر کی طرف
رہی دل میں حسرت کہ بانی چلیں
کسی منزلِ پُر خطر کی طرف
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...